مردہ معاشرے کا جنازہ تحریر:محمد علی ایاز کبیروالا

جمعرات کی سہ پہر کبیروالا کے پنجابی شاعر عبدالستار خاور نے فون پر اطلاع دی کہ استاد ڈاکٹر بیدل حیدری کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا ہے اور ان کی نماز جنازہ بعد مغرب دارلعلوم عید گاہ کبیروالا ادا کی جائے گی۔استاد ڈاکٹر بیدل حیدری بلاشبہ وہ شخصیت ہیں کہ ادب کے حوالے سے جب بھی کبیروالا کا ذکر ہوگا تو ڈاکٹر بیدل حیدری کا نام ہی کبیروالا کی ادبی شناخت کی صورت میں لیا جائے گا۔اہل علم لوگوں سے سنتے آئے ہیں کہ ادب کسی بھی معاشرے میں انسانی جسم کے اندر خون کی گردش کی طرح ہوتا ہے جس طرح انسانی زندگی کا تصور خون کی گردش کے بغیر ناممکن ہے اسی طرح زندہ معاشرے میں ادبی و تخلیقی سرگرمیوں کا ہونا اور ان کی پذیرائی لازمی امر ہے۔جو قومیں ادب کی لطافت سے محروم ہوجاتی ہے پھر ان عدم برداشت،شدت پسندی بڑھتے بڑھتے دہشت گردی کا روپ دھار لیتی ہے اور پھر اس مردہ معاشرے میں سانس تک لینا محال ہوجاتا ہے۔ڈاکٹر بیدل حیدری کے بارے میں یہ بات بانگ دہل کہی جاسکتی ہے کہ آپ ادب کے وہ سورج تھے جن کی روشنی سے کئی ستارے آسمان ادب پر اپنی پر اپنی روشنیاں بکھیر رہے ہیں مگر ادب کا یہ سورج جب اپنے جسمانی وجود کے لحاظ سے غروب ہوا تو ان کی نماز جنازہ پڑھنے والے بہت کم لوگ تھے اور ان سےفیض حاصل کرنے والے طوطے کی طرح اپنی آنکھیں پھیر چکے تھے۔جمعرات کی شام جب استاد سخن ڈاکٹر بیدل حیدری کی شریک حیات کا جنازہ دارلعلوم کبیروالا لایا گیا تو اسے دیکھتے ہوئے مجھے یہ بات کہنے میں قطعا کوئی جھجھک نہیں کہ یہ جنازہ ان کی اہلیہ کا نہیں آرہا تھا بلکہ ہمارے مردہ معاشرے کا جنازہ لایا جارہا ہے کیونکہ اس درویش خاتون کی چارپائی کے ساتھ فقط چند افراد کا ہونا اس بات کا ثبوت تھا۔ یہ بھرم دارلعلوم کبیروالا کے طلباء اور اساتذہ نے رکھا کہ نماز جنازہ ادا کرتے وقت تین قطاریں لگ گئیں اور ان کی شرکت سے نماز جنازہ میں ایک معقول تعداد شامل ہوگئی۔اس سے زیادہ تلخ بات اگلے دن ہوئی کہ جب استاد سخن ڈاکٹر بیدل حیدری کی اہلیہ کا سوگ منانے والا کوئی نہ تھا ان کی فاتحہ کے لئے کوئی "ستھر"نہیں بچھایا گیا۔ڈاکٹر بیدل حیدری کا ایک بیٹا تو ٹریفک حادثے میں زندگی کی بازی ہار گیا۔جبکہ دوسرا بیٹا ہمایوں لاکھوں نوجوانوں کی طرح اس معاشرے کے نیک نام اور معزز شخصیات کے پرکشش منافع بخش کاروبار منشیات کی بھینٹ چڑھ گیا۔اپنی والدہ کے انتقال کے دوسرے روز ہمایوں اپنی والدہ کے اظہار تعزیت کرنے آنے والے لوگوں کا انتظار کرنے کی بجائے اپنی خوراک پوری کرنے کسی منشیات فروش کے اڈے پر پہنچ گیا ویسے ہوسکتا ہے اسے اتنا شعور ہو کہ میری والدہ کی تعزیت کے لئے کسی نے آنا تو ہے نہیں تو وہ اپنے کرایہ کے گھر بیٹھ کر کیوں وقت ضائع کرے۔آج میں ڈاکٹر بیدل حیدری کی روح سے یہ سوال کرنے کی جسارت کررہا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کہ آپ کو کیا ضرورت تھی کہ تقسیم کے وقت اپنی ٹھاٹھ باٹھ کی زندگی چھوڑ کر اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان چلے آئے۔اور پھر کیا ضرورت تھی کہ لاہور آنے کے بعد شہر کبیروالا چلے آئے۔آپ اپنی فیملی کو کس کے سہارے چھوڑ کر چلے گئے کہ بیٹا نشہ کرنے لگا۔آپ کی اہلیہ اور بیٹی زندہ رہتے ہوئے پل پل مرتے رہے یہ ماں بیٹی ان لوگوں کی لاپروائی کا شکار بھی ہوئیں کہ جو لوگ ڈاکٹر بیدل حیدری کی زندگی میں ان کے قدم چومنے کے لئے برقرار رہتے تھے پھر وہ کبھی دکھائی ہی نہ دئیے۔آج بروز ہفتہ ان کی رہائش گاہ پر اس مرحومہ کی مغفرت کے لئے اجتماعی دعا کا مسیج ملا ہے اور یہ اہتمام ان کی نواسی کے خاوند نے کیا ہے مگر مجھ میں اس اجتماعی دعا میں شامل ہونے کی ہمت نہیں ہے۔تحریر:محمد علی ایاز کبیروالا

Comments